Save Our Wolves
Save Our Prince Of Grasslands
پاکستان میں انڈین بھیڑیے
Indian wolf (Canis lupus pallipes)
کی نسل شدید خطرے سے دو چار ہے انڈین بھیڑیا جسے ہماری علاقاٸی یا مقامی زبان میں (بھگیاڑ) کہا جاتا ہے، یہ انڈین بھیڑیا، سرمٸی بھیڑیا Gray wolf کی ذیلی قسم Subspecie ہے۔ یہ برصغیر Indian subcontinent سے جنوب مغربی Southwest ممالک میں پایا جاتا ہے۔ اگر تاریخ History کی بات کریں تو 1871 سے لے کر 1916 تک یعنی 45 سالوں میں انگریزوں نے پورے برصغیر میں 1 لاکھ سے زاٸد انڈین بھیڑیوں کو مروایا۔
نوٹ : آج ہمیں جو لوگ مغرب کے لوگوں کی مثالیں دیتے ہیں کہ وہ ہم مسلمانوں سے بہتر ہیں، حقیقت اس کے برعکس ہے ان گوروں نے برصغیر سمیت افریقہ، آسٹریلیا، امریکہ اور دنیا کے باقی ممالک میں جتنا نقصان اور ظلم جنگلات، جنگلی حیات، قدرتی ماحول اور سمندروں کا کیا ہے اور ابھی بھی جاری ہے، اسکی مثال نا تو اس سے پہلے کے ماضی میں ملے گی اور نا ہی آنے والے مستقبل میں۔ یہ ماحولیاتی تباہی آج بھی بھرپور جاری ہے، سب سے بڑا ہاتھ بھی ان گوروں کا اور ان جیسے دوسرے امیر ممالک کا ہے۔
شکار کو کھیل کا درجہ دے کر آٸے روز جدید شکاری ہتھیار اور قوانین ان گوروں نے ہی بناٸے ہیں جنکی بنیاد پر ہم قانونی شکار، غیر قانونی شکار اور ٹرافی شکار کی بحث کے چنگل سے باہر ہی نہیں آرہے۔ ان کے بارے میں پھر کبھی تفصیل سے لکھ کر شیٸر کروں گا۔ تو ہم بات کررہے تھے انڈین بھیڑیے کی، پاکستان بننے کے بعد باقی جنگلی حیات کی طرح انڈین بھیڑیوں کی بھی اچھی خاصی تعداد موجود تھی۔ اگر بات ضلع لاہور کی کروں تو یہ انڈین بھیڑیا شہری آبادی سے باہر والے علاقوں میں عام پایا جاتا تھا۔ تب کھیتی باڑی زیادہ نہیں ہوتی تھی، بنجر زمینیں تھیں انسانی آبادی بھی کم تھی اور شہر کے باہر منسلک کھیتی باڑی والے اور بنجر علاقوں میں بھیڑیے ملتے تھے۔ قدرتی خوراک جس میں نمایاں ہرن تھے، وہ تقریباً نا ہونے کے برابر تھے، اسی لیے یہ انڈین بھیڑیے قدرتی ماحول میں جنگلی خرگوشوں، چوہوں، جنگلی سوروں، اور انسانی آبادیوں میں آ کر بھیڑ، بکریوں، گاٸے اور بھینسوں کے بچوں پر حملے کرتے اور کھاتے تھے۔ جیسے جیسے بنجر زمینیں آباد ہونا شروع ہوتی گٸیں، انسانی سرگرمیوں میں اضافہ ہوتا گیا ویسے ویسے ان انڈین بھیڑیوں کے رہنے کی جگہ اور قدرتی خوراک بھی کم ہوتی گٸی۔ اپنے گھر تباہ ہونے اور قدرتی خوراک نا ملنے پر انڈین بھیڑیے تناٶ میں آتے گٸے۔ ایسے میں یہ انڈین بھیڑیے انسانی آبادیوں میں آ کر مویشیوں پر حملے تیز کرتے گٸے، اسکا ردعمل بھی لازمی آنا تھا، کسانوں اور چرواہوں نے ان بھیڑیوں کو مارنا شروع کردیا۔انکو اتنا مارا گیا کہ یہ ضلع لاہور کیا گردونواح کے علاقوں سے غاٸب ہوتا چلا گیا۔ ابھی چند دن پہلے میں نے اپنے والد صاحب سے پوچھا کہ انہوں نے ضلع لاہور کے نواحی علاقے میں آخری بار کب جنگلی انڈین بھیڑیا دیکھا تو انہوں نے بتایا کہ آج سے 45 سے 50 سال پہلے گاٶں کے پاس دیکھا کرتے تھے،
اسی طرح مجھے بتایا گیا کہ اگر بھیڑیوں کے متعلق مستند معلومات لینی ہے تو اپنے گاٶں یا علاقے کے سب سے پرانے چرواہے سے حاصل کریں۔ 2 دن پہلے میں نے اپنے گاٶں کے معزز اور سینٸر چرواہے چاچا محمد علی کو اپنے آفس میں دعوت دی اور ان سے انڈین بھیڑیوں کے متعلق کافی دیر تک دلچسپ گفتگو کی۔ انہوں نے بھی ملتی جلتی بات کی کہ 50 سے 55 سال پہلے تک اس علاقے میں بھیڑیے دیکھے تھے۔
یہ جان کر بہت افسوس ہوا اتنا شاندار جانور ہمارے علاقوں سے اتنی تیزی سے غاٸب ہوا جیسے مٹھی سے ریت نکلتی ہے۔ تب ہمارے بڑوں نے اور اب ہم کچھ نہیں کر پا رہے۔ یہ بے بسی واقعی بہت تکلیف دہ ہے۔ لاہور کی کیا بات کریں یہ بھیڑیا اب صوبہ پنجاب کے بڑے حصے سے مکمل طور پر ختم ہو چکا ہے۔ کنفرم نہیں ہے کہ صوبہ پنجاب میں انکی تعداد گنتی میں 10, 20, یا 50 ہے۔ یہی صورتحال پورے پاکستان کی ہے۔
انڈین بھیڑیا انسانی زیر قبضہ والے علاقے ہوں، نیشنل پارک ہوں، یا واٸلڈ لاٸف سینچریز یہ خوبصورت جانور کہیں بھی محفوظ نہیں رہ سکا یا تو بے دردی سے مارا گیا، یا پھر اسمگل ہوا۔ میری دلی خواہش ہے انڈین بھیڑیوں کی تعداد نیشنل پارکس،National parks واٸلڈ لاٸف سینچریز Wildlife sanctuaries سمیت انسانی زیر قبضہ والے بنجر اور زرعی علاقوں میں بڑھے۔ یہ اپنی قسم کے ایسے بھیڑیے ہیں جو پوری دنیا میں صرف اسی خطے میں پاٸے جاتے ہیں اور یہاں بھی انکی قدرتی آمادگاہیں اور یہ خود محفوظ نہیں ہیں۔
تحریر : فہد ملک (جنگلی حیات کا کارکن)
Leave a Reply